۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
رمضان کریم

حوزہ / اخلاقی مسائل میں سے ایک مسئلہ جو انسانی زندگی پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتا ہے وہ ادب کا مسئلہ ہے، جس پر اسلامی آیات اور روایات میں بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔

ترجمہ و تحقیق: فرمان علی سعیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | آداب بندگی کو مختلف جہتوں سے زیر بحث لایا جا سکتا ہے اور ہم یہاں اس کی اہمیت اور مراتب، اقسام، مصادیق، علامات اور آثار کے سلسلہ میں جاری بحث کو بیان کریں گے:

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ وَ صَلّیَ اللهُ عَلَى خَیرِ خَلْقِهِ مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ الطَّاهِرِین۔‏

حدیث قدسی میں عبارت نقل ہوئی ہے:

"مَن طَلَبَنی وَجَدَنی، و مَن وَجَدنی عَرَفَنی، و مَن عَرَفَنی احَبّنی و مَن احَبّنی عَشَقَنی‏، و مَن عَشَقَنی‏ عَشَقْتُهُ، و مَن عَشَقْتُهُ قَتَلْتُهُ، و من قَتَلْتُهُ فَعَلَی دِیتُهُ، و مَن علی دیتُه فانا دِیتُه" (حسن زاده حسن، هزار و يك نكته، تهران، انتشارات رجاء، چاپ پنجم، سال 1365 ه ش، ص 569)

‏جو مجھے ڈھونڈے گا وہ مجھے پائے گا اور جس نے مجھے پایا وہ مجھے پہچانے گا اور جس نے مجھے پہچانا وہ مجھ سے محبت کرے گا اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ مجھ سے محبت کرے گا اور جس نے مجھ سے محبت کی میں بھی اس سے محبت کروں گا۔ جس سے میں محبت کرتا ہوں اس کو قتل کرتا ہوں اور جس کو قتل کرتا ہوں اس کے خون کی قیمت مجھ پر واجب ہوتی ہے اور جس کے خون کی قیمت مجھ پر واجب ہوئی تو میں خود اس کے خون کی قیمت ہوں۔

2۔ عبادت

انسان کی تربیت میں اثر گذار عوامل میں سے ایک جیسا کہ خداوند متعال نماز کے بارے میں فرماتا ہے: وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ

« إِنَّ الصَّلاهَ تَنْهى‏ عَنِ الْفَحْشاءِ وَ الْمُنْکَر

اور نماز قائم کریں کہ نماز ہر برائی اور بدکاری سے روکنے والی ہے۔

«إِنَّ الَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبرِونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَ يُسَبِّحُونَهُ وَ لَهُ يَسْجُدُونَ»

(اعراف/206)

جو لوگ اللہ کی بارگاہ میں مقرب ہیں وہ اس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتے ہیں اور اسی کی بارگاہ میں سجدہ ریز رہتے ہیں۔

امام کاظم علیہ السلام اس حولے سے فرماتے ہیں:

"أَفْضَلُ مَا تَقَرَّبَ بِهِ الْعَبْدُ إِلَى اللَّهِ بَعْدَ الْمَعْرِفَةِ بِهِ الصَّلَاة"( تحف العقول، ص ۳۹۱)

سب سے بہترین چیز جس سے بندہ خدا کی پہچان اور شناخت کے بعد خدا کا قرب حاصل کر سکتا ہے، وہ نماز ہے۔

3۔ رفتار اور کردار کی درستگی:

بعض رفتار اور کردار انسان کی تربیت میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں، اور ان کو دہرانے، تمرین اور ان پر بار بار عمل کرنے سے بندے کے بندگی کے آداب کو تقویت ملتی ہے۔ ہم دو مورد کو نمونہ کے طور پر بیان کرتے ہیں:

الف: اللہ تعالی کی نعمتوں کا ذکر اور یاد آوری

«"وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ وَمَنْ يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ"( لقمان/۱۲)۔

اور ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی کہ پروردگار کا شکریہ ادا کرو اور جو بھی شکریہ ادا کرتا ہے وہ اپنے ہی فائدہ کے لئے کرتا ہے اور جو کفرانِ نعمت کرتا ہے اسے معلوم رہے کہ خدا بے نیاز بھی ہے اور قابل حمدوثنا بھی ہے۔

«وَ إِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذابِی لَشَدِیدٌ»

«وَلَقَدْ آتَيْنَا لُقْمَانَ الْحِكْمَةَ أَنِ اشْكُرْ لِلَّهِ وَمَنْ يَشْكُرْ فَإِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّه"َ غَنِيٌّ حَمِيدٌ"( ابراهیم/۷)

اور جب تمہارے پروردگار نے اعلان کیا کہ اگر تم ہمارا شکریہ اد اکرو گے تو ہم نعمتوں میں اضافہ کردیں گے اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو ہمارا عذاب بھی بہت سخت ہے۔

ب: حسن ظن:

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:

«لَا يمُوتَنَّ أَحَدُكمْ حَتَّي يحْسِنَ ظَنَّهُ بِاللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَإِنَّ حُسْنَ الظَّنِّ بِاللَّهِ عَزَّ وَ جَل ثَمَنُ الْجَنَّة»

تم میں سے کسی کو اس وقت تک موت نہیں آنی چاہیے جب تک کہ اللہ تعالی پر حسن ظن کو بہتر نہ کریں کیونکہ خدا پر حسن ظن کا صلہ اور قیمت جنت ہے۔

روایات میں مذکور ہے کہ "قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ لوگوں کا حساب کتاب کرے گا۔ ایک شخص باقی رہ جاتا ہے جس کے گناہ اس کی نیکیوں سے زیادہ ہیں۔ فرشتے اس کا عذاب لیتے ہیں اور اسے آگ میں گھسیٹتے ہیں۔ وہ مڑ کر اپنے پیچھے دیکھتا ہے۔ خدا ان کو حکم دیتا ہے کہ آپ اسے واپس لے آئیں۔ پھر اس سے پوچھتا ہے؟ تم نے اپنے پیچھے کیوں دیکھا؟ وہ جواب دیتا ہے کہ بارالہا! مجھے امید نہیں تھی کہ آپ مجھے جہنم میں لے جائیں گے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے فرشتو! میری عزت و جلال کی قسم اس نے مجھے ایک دن بھی مجھ پر خوش گمان نہیں تھا ، لیکن اسے جنت میں لے چلو کیونکہ اس نے میرے بارے میں پر امید ہونے کا دعویٰ کیا ہے"۔

سبق آموز کہانی:

جب نادر شاہ افشار نے ہندوستان کو فتح کرنے کا عزم کیا تو راستے میں اس نے ایک بچے کو سکول جاتے دیکھا۔

اس سے پوچھا: جان بیٹا تم کیا پڑھ رہے ہو؟

کہا: قرآن۔

پوچھا: قرآن کی کونسی جگہ(کونسی آیت پڑھ رہے ہو)؟

اس نے کہا:" انا فتحنا۔۔۔۔۔" اس کے جواب سے نادر بہت خوش ہوا اور فتح کی آیت سن کر فتح کی پیشین گوئی کی۔

پھر اس نے لڑکے کو سونے کا سکہ دیا لیکن لڑکے نے لینے سے انکار کر دیا۔

نادر نے کہا: تم اسے کیوں نہیں لیتے؟

اس نے کہا: میری ماں مجھے مارے گی اور کہے گی کہ تم نے یہ رقم چوری کی ہے۔

نادر نے کہا: اسے بتاؤ کہ نادر نے دیا ہے۔

لڑکے نے کہا: میری ماں نہیں مانتی۔

وہ کہتی ہے: نادر ایک سخی آدمی ہے۔ اگر اس نے تمہیں یہ سکہ دیا ہے تو وہ تم صرف کو ایک سکہ (ایک پیسہ) نہیں دے گا۔ بلکہ وہ تم کو بہت زیادہ پیسہ اور سکہ دیتا۔

اس کی باتیں نادر کے دل کو چھو گئیں۔ اس نے مٹھی بھر سونے کے سکے اس کی گود میں ڈالے۔

جیسا کہ تاریخ میں مشہور ہے کہ اس نے اس سفر میں اپنے حریف محمد شاہ گورکانی کو شکست دی۔ (جاری ہے)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .